Orhan

Add To collaction

پچھتاوائے انتقام

پچھتاوائے انتقام از نشال عزیز قسط نمبر20

لڑکیوں کو باحفاظت سیف ہاؤس پہچانے کے بعد اسکی ہمت جواب دینے لگی تھی،کندھے میں ہوتی تکلیف شدت پکڑنے پر اس نے وہی ٹریٹمنٹ کروایا،تیمور نے اسکی حالت دیکھتے ہوئے اسے سیف ہاؤس میں رہنے کا کہا جس پر وہ انکار کرگیا،اور اب بمشکل کار ڈرائیو کرتے ہوئے وہ دیر رات کو گھر لوٹا،پورچ میں کار کھڑی کر کے وہ اندر داخل ہوا،گھر کی سبھی لائٹس آن تھیں جانتا تھا یہ انہیں محترمہ کے کارنامے ہونگے جو رات کو اکیلے رہنے کے ڈر سے ساری لائٹس آن کیے تب تک لاونج میں بیٹھے رہتی جب تک زین نہ آجاتا،پر کپ رات جو اس نے کہا تھا اس کے بعد سے اب تک زین نے ازہا سے بات تک کرنا گوارا نہیں کی تھی، گیٹ بند کرنے کی آواز پر ازہا جو لاؤنج کے صوفے پر دونوں پیر اوپر کیے بیٹھی تھی،اچانک گردن موڑ کر دیکھنے لگی،زین کو دیکھ کر اسکی جان میں جان آئی ورنہ رات کو اکیلا رہنا اسے بہت خوفزدہ کردیتا تھا،ازہا کو مکمل اگنور کیے وہ سیدھا روم میں جانے لگا،البتہ چال میں تھوڑی لڑکھڑاہٹ تھی،ازہا جو پرسکون سی اسے دیکھ رہی تھی پر زین کو کندھے پر ہاتھ رکھا دیکھ وہ ٹھٹھکی، "تم ٹھیک تو۔۔۔؟" وہ پوچھتے ہوئے آگے بڑھنے لگی تھی پر زین کے ایک ہاتھ کے اشارے پر اسکے آواز کے ساتھ قدم بھی تھمے،اسے روک کر وہ خاموشی سے اندر روم میں چلاگیا،ازہا کچھ دیر انگلیاں چٹخاتی سوچتی رہی پھر صبر نہ ہوا تو جلدی سے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے زین کے پیچھے روم میں چلی آئی، زین کو بمشکل شرٹ اتارتا دیکھ وہ آگے بڑھی اور اسکے سامنے آتے ہوئے شرٹ کے بٹنز کھولنے لگی،زین نے پیشانی پر شکن لائے اسکی ہمت کو دیکھا جو ٹوکنے کے باوجود اپنی ضد دکھاتی، "ایک بار بات سمجھ نہیں آتی کیا۔۔؟" اسکا ہاتھ اپنی شرٹ سے جھٹکتے ہوئے زین نے گھرکا،مگر ازہا پھر ہاتھ بڑھا کر اسکے بٹنز کھولنے لگی،زین کی شرٹ بلیک ہونے کے باوجود اسے زین کے کندھے کی طرف کچھ گیلے پن کا احساس ہوا،اور وہ کسی خوف سے اپنی ضد پر اڑی اسکا زخم دیکھنا چاہ رہی تھی،جہاں سے اس نے ازہا سے گولی نکلوائی تھی،شرٹ کے تمام بٹنز کھولنے کے بعد ازہا نے نگاہ جھکائے اسکے کالر کو پکڑ کر کندھے کے طرف سے ہٹانا چاہا پر اگلے ہی لمحے زین نے اسکی نازک کمر کو اپنی گرفت میں لیا،ازہا کی ڈھٹائی پر اسکا خون کھولا تھا،کیوں وہ لڑکی ایک مرتبہ میں بات نہیں مانتی تھی، "بہت ضدی بنتی ہو میرے سامنے۔۔۔۔اب اگر میں تمہیں اپنی ضد دکھاؤں تو رونا نہیں۔۔۔" دانت پیس کر کہتے ہوئے زین نے کمر سے تھام کر جھٹکے سے اسے موڑتے ہوئے بیڈ پر دھکا دیا،ازہا کے منہ کے بل بیڈ پر گرتے ہی زین نے اپنی شرٹ اتاری تھی،ازہا پلٹ کر خوف سے زین کو دیکھنے لگی جو اب بیڈ کے قریب آرہا تھا،اسکے اچانک بدلتے تیور ازہا کی روح فنا کرنے لگے تھے، "ز۔۔ززین۔۔۔" وہ ہکلائی تھی ہر لفظ تب منہ میں دم توڑ گئے جب زین نے اسکا دوپٹہ جھٹکے سے کھینچ کر دور پھینکا تھا،وہ روتی شکل بنائے صوفے پر پھینکے اپنے دوپٹے کو دیکھنے لگی،تبھی اپنے حس سے زیادہ نزدیک اسے زین کی گرم سانسیں محسوس ہوئی،ازہا بوکھلاکر پیچھے ہوئی پر زین کے خود پر جھکنے پر وہ سیدھا بیڈ پر سر ٹکاگئی،اسکے تنے تاثرات دیکھ ازہا کو رونا آیا پر جب نظر زین کے برہنہ کندھے پر گئی جہاں پٹی لگی تھی تو اپنا رونا بھلائے وہ حیرت سے اپنی مخروطی انگلیاں اس پٹی پر پھیرنے لگی، "تمہارا زخم ت۔۔۔تو۔۔۔ٹھیک۔۔ہونے۔۔۔لگ۔۔لگا تھا۔۔۔پھر۔۔۔یہ۔۔کیسے۔۔" اسکی قربت کے باعث ازہا کے منہ سے بمشکل الفاظ ادا ہوئے،البتہ لہجہ اسکا حیران کن تھا، "تمہیں کیوں فکر ہورہی ہے میری اتنی۔۔۔۔" اسکی گردن کو اچانک اپنے شکنجے میں لیے زین نے کرخت آواز میں استفسار کیا،ازہا کی آنکھیں ابلی تھیں اسکے بھاری ہاتھ کا دباؤ گردن پر محسوس کر کے، "زین۔۔۔چھو۔۔چھوڑو۔۔۔" تکلیف دہ لہجے میں بولتے ہوئے اسکی آواز بھیگی،اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھے وہ بھرپور کوشش کیے زین کا ہاتھ اپنی گردن سے ہٹانے لگی پر مقابل کی گرفت مضبوط ہونے پر ازہا نے اسکے سینے پر مکے برسانے شروع کردیے،اسکی یہ مزاحمت دیکھ زین کے لبوں پر ناچاہتے ہوئے بھی ایک دلکش مسکراہٹ آئی،اچانک اسکی گردن کو بخشتا وہ اسکے لبوں پر جھکا تھا،ازہا جو گردن کی بخشش پر ابھی سانس بھی نہ لے پائی تھی،اب اسکی گستاخیوں کے آگے بےبس ہونے لگی،مخروطی انگلیوں نے زین کے کندھے پر نرمی سے ہاتھ رکھا تھا، "کل کیوں تم نے ایسا کہا۔۔۔" اسکے لبوں کو آزاد کیے زین نے اسکی پیشانی سے اپنی پیشانی ٹکائے نرمی سے پوچھا،ازہا جو اپنی سانس بحال کرنے کے چکر میں گہرے سانس لے رہی تھی،اب ادھ کھلی آنکھوں سے اسکے بےحد نزدیک چہرے کو دیکھنے لگی،شاید وہ بہت ہرٹ ہوا تھا ازہا کی بات پر، "م۔۔میرا۔۔وہ مطلب۔۔نہیں تھا زین۔۔۔سوری۔۔" وہ شرمندگی سے بولتی چہرہ ہاتھوں میں چھپائے رودی،اسے روتا دیکھ زین نے جھک کر نرمی سے ازہا کی پیشانی چومی،پھر اسکے برابر میں لیٹ گیا، "اچھا لڑکی۔۔۔رونا تو بند کرو۔۔۔" اسے مسلسل روتا دیکھ زین نے تھوڑا بلند آواز میں ٹوکا پر ازہا کے اگلے عمل پر وہ چونکا،وہ جھٹکے سے اسکے قریب ہوتے ہوئے زین کے سینے پر سر رکھ گئی،زین نے آسودگی سے مسکراتے ہوئے اسکے گرد بازو حائل کیا، "میں یہ نہیں کہوں گا کہ مجھے تم سے شدید محبت ہے۔۔۔پر اتنا ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ تم تک اب کوئی تکلیف کوئی درد آنے نہیں دونگا،پوری کوشش کرونگا کہ تم میرے ساتھ خوش رہو۔۔۔" کچھ دیر بعد وہ نہایت ہلکی آواز میں اسکے کانوں میں سرگوشیاں کرنے لگا جبکہ ازہا اسکی باتوں میں سچائی کا انثر محسوس کیے پرسکون سی آنکھیں موند گئی، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے کمرے میں وہ مسلسل ارد گرد چکر لگارہے تھے، اشتعال اتنا تھا کہ قابو نہیں ہوپارہا تھا،نتاشہ سے بات کرتے وقت جب انکے نمبر پر اپنے اسسٹنٹ کی کال آئی تو وہ کافی حیران ہوئے تھے،پر اس نے جب بتایا کہ سبھی لڑکیوں کو جہاز میں بٹھانے سے قبل ہی ان ایجنٹس نے انکے آدمیوں کو پکڑ لیا تو طاہر علوی کو اپنے اوپر پہاڑ ٹوٹتا محسوس ہوا،وہ آدمی اپنا چھوٹا نقصان بمشکل برداشت کرتا بجا کہ اب اتنا بڑا نقصان ہوا اوپر سے اسسٹنٹ کا یہ کہنا کہ انکی ٹیم میں ایک ایجنٹ کا آدمی پہلے سے ہی مخبر تھا یہ خبر انکی دماغ کی رگیں پھٹنے پر مجبور کرنے لگی، "زبرین افتخار۔۔۔بہت ہوا تمہارا گیم۔۔۔جتنا نقصان میرا ہوا ہے اسکی سزا تو بنتی ہے۔۔۔۔" وہ غصے میں کہتے ساتھ ایک نمبر ڈائل کرنے لگے، "ہیلو۔۔۔جلدی میرے مینشن پہنچو۔۔۔ایک ویڈیو ریکارڈ کروانی ہے۔۔۔" ضبط سے مٹھیاں بھینچے وہ بولے ساتھ ہی کال کاٹی، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خوبصورت محل نما گھر میں وہ اپنے کمرے میں جہازی سائز بیڈ پر بیٹھا تھا،سامنے وہ لاکر تھا جس کا پاسورڈ وہ اب خود کھولنے کی کوشش کرنے کا سوچ رہا تھا،کل کے مشن کو تکمیل پہنچانے کے بعد اسکا کام تھوڑا ہلکا ہوا اب بس طاہر علوی کی اصلیت سب کے سامنے لانی تھی جو کہ اسکے سامنے رکھے لاکر میں تھی،لاکر کا پاسورڈ اس نے ایک مرتبہ نتاشہ لکھ کر ٹرائے کیا پر رونگ نکلا،اسے حیرت ہوئی کیونکہ اتنا تو اسے یقین تھا کہ طاہر علوی نے اپنے کسی عزیز کے نام پر ہی پاسورڈ رکھا ہوگا اور فلحال تو انہیں حد سے زیادہ عزیز صرف انکی اکلوتی بیٹی تھی،پھر کیوں پاسورڈ غلط ہورہا تھا،انہیں سب سوچوں سے وہ تب نکلا جب اسکے روم کا گیٹ ناک ہوا، "کم ان۔۔" لاکر پر نظریں جمائے زبرین نے سرد لہجے میں کہا تبھی روم کا گیٹ کھولتے ہوئے ایک سرونٹ اندر داخل ہوا، "سر یہ پارسل آیا ہے آپکے لیے۔۔۔" وہ مودبانہ انداز میں کہتے ساتھ پارسل ٹیبل پر رکھا پھر روم کا گیٹ بند کرتے ہوئے چلاگیا،زبرین نے ایک نظر پارسل کی طرف دیکھا پھر اٹھ کر ٹیبل کے قریب آیا،پیکٹ کھول کر اس نے اندر دیکھا،ایک چھوڑا سا بوکس تھا،بوکس کھولنے پر اس میں سے ایک یو ایس بی نکلی،زبرین کچھ دیر چاروں طرف سے اس یو ایس بھی کو دیکھنے لگا پھر کچھ سوچ کر روم میں نسب ایل ای ڈی کے پاس آیا،یو ایس بی اس میں لگانے کے بعد زبرین نے ریموٹ اٹھایا تھا،کچھ دیر بعد سکرین پر جو چہرہ آیا،وہ زبرین کے دانت بھینچنے پر مجبور کرگیا،طاہر علوی کا مکروہ چہرہ،یہ کائی ویڈیو تھی جو شاید طاہر علوی نے خود ریکارڈ کروائی تھی، "کیسے ہو زیبی۔۔۔جانتا ہوں خوش ہی ہوگے۔۔۔مجھے بیٹ جو کرگئے آخر۔۔۔۔" کہتے ساتھ وہ قہقہہ لگا کر ہنسے،زبرین نے ناگواریت سے اس گھٹیا انسان کی ہنسی دیکھی،اسے حیرت ہوئی کہ اتنے بڑے نقصان کے باوجود وہ کیوں اتنا مسکرارہا تھا، "میں جانتا ہوں تم اب حیرت میں مبتلا ہوگے کہ میں کیوں اتنا مسکرارہا ہوں۔۔۔۔تو چلو یہ بھی بتادیتا ہوں تمہیں کہ میں اس لیے خوش ہوں کہ اب جو بات میں تمہیں بتانے والا ہوں اسکو سننے کے بعد تمہارا جو حال ہوگا۔۔۔ہاہاہا۔۔۔میں تو تصور میں سوچ کر ہی مزے لے رہا ہوں کہ کیا حال ہوگا تمہارا۔۔۔۔۔چلو تو اب ان بیکار باتوں کو پیچھے کرتے ہیں اور اصل مدعے پر آتے ہیں۔۔۔مجھے اچھے سے پتا ہے کہ تم پچھلے انیس سالوں سے یہ بات جاننے کے لیے بی چین ہوگے کہ آخر میں نے تمہاری ماں اور بہن ان فیکٹ تم لوگوں کے ساتھ وہ دھوکہ دہی کیوں کی۔۔۔۔تو سٹرونگ مین اب میری باتیں غور سے سنو۔۔۔۔کسی انسان کو یونہی شوق نہیں ہوتا دوسروں کو دھوکہ دینے کا،اس سے پہلے وہ خود دھوکہ کھا چکا ہوتا ہے تبھی اسکے اندر بدلے کی آگ بھڑکتی ہے اور جیسی آگ ابھی تمہارے اندر ہے ٹھیک ویسے ہی آگ ایک عرصے میں میرے سینے میں لگی تھی جب تمہاری ماں نے مجھے دھوکہ دیا تھا۔۔۔" وہ جو طاہر علوی کے منہ سے سچائی جاننے کے لیے بےچین مکمل توجہ سے اسے سن رہا تھا اب انکے الفاظوں پر ساکت ہوا تھا، "تمہاری ماں۔۔۔ہنہہ۔۔۔شادی کی رات اپنے محبوب کے ساتھ گھر سے بھاگی ہوئی وہ لڑکی جس نے گاؤں بھر میں میری عزت خراب کر کے رکھ دی۔۔۔لوگ مجھ پر تھو تھو کرنے لگے کہ گاؤں کے وڈیرے کی ہونے والی بیوی شادی کی رات ہی گھر سے بھاگ گئی۔۔۔۔اس رات میں رویا تھا بہت رویا کیونکہ میرے دل میں اس عورت کے لیے سچے جذبات تھے پر اس نے کیا کِیا۔۔۔اس رات آنسوؤں کے ساتھ ہی اسکی محبت بھی میرے دل سے بہہ گئی،بس پھر کیا،اگر اندر کچھ تھا تو وہ یہ ہی تھا کہ مجھے کسی بھی طرح اب اس عورت کی زندگی برباد کرنی ہے۔۔۔۔بہت ڈھونڈا میں نے اسے۔۔۔بہت۔۔۔۔کافی عرصے ب گزر گئے لیکن میں نے جو ٹھان لی تھی وہ کر کے ہی دم ملنا تھا مجھے۔۔۔۔بہت سالوں بعد جاکر میں اپنے مقصد کے قریب پہنچا۔۔۔۔یعنی کہ ایک دن مجھے خبر مل ہی گئی اسکے بارے میں۔۔۔۔اس دن میں اکیلے گیا تھا مطلوبہ پتے پر۔۔۔۔وہ شہر میں رہ رہی تھی۔۔۔۔پر اتفاق دیکھو جب وہ مجھے ملی تب وہ دو بچوں کی ماں تھی اور اسکا بے چارہ محبوب۔۔۔۔تمہارا باپ مرچکا تھا۔۔۔۔مجھے خوشی ہوئی کہ قدرت نے کتنا اچھا موقع دیا تھا مجھے بدلہ لینے کا۔۔۔۔مجھے اپنے گھر میں دیکھ کر وہ کافی خوفزدہ ہوئی تھی پر میں نے اپنی شرافت دکھلاکر جلد ہی اسے یقین دلایا کہ میں ایک نہایت ہی سیدھا انسان ہوں۔۔۔۔بس پھر تو تمہیں معلوم ہی ہے۔۔۔" یہ بات بول کر وہ ہلکا سا قہقہہ لگائے،زبرین اب تک خاموشی سے انکی ویڈیو دیکھ رہا تھا،وجیہہ چہرے پر ناگواریت پھیلتے جارہی تھی، "میں نے خوب دل جمعی اور عزت و احترام دکھا کر تمہاری ماں اور بہن کا بھروسہ جیتا۔۔۔پر تم پتا نہیں کس مٹی کے بنے تھے جو اکثر صاف لہجے میں کہنے سے گریزاں نہیں گزرتے کہ میں تمہیں ایک مکار انسان لگتا ہوں۔۔۔۔کبھی کبھی میرا دل چاہتا کہ تمہاری جان ہی لے لوں پر بچہ سمجھ کر بخش دیتا۔۔۔پھر اس رات جب تم لوگ سورہے تھے تب میں اپنے آدمی کے کر تمہار گھر پر آیا اور وہی دن تھا جب تمہاری ماں کو میں نے یہ جتادیا کہ طاہر علوی کو دھوکہ دینے کا انجام کتنا اذیت ناک ہوتا ہے۔۔۔۔اب یہ سب باتیں لے جاؤ تھوڑے سائیڈ میں کیونکہ یہ تو تمہیں بھی معلوم ہے کہ اس رات۔۔۔۔" وہ پھر قہقہہ لگاکر ہنسے پر اس وقت تک زبرین کی آنکھوں میں بلکل سرخائی گھل چکی تھی،وہ وقت سوچ کر ہی دل بری طرح اذیت سے تڑپنے لگتا تھا، "مین بات تو یہ ہے کہ اس رات۔۔۔۔تمہاری۔۔۔بہن۔۔۔بچ گئی تھی۔۔۔" انکی اس بات پر زبرین کی آنکھیں پتھرائی تھیں،تو کیا سچ میں اسکی بہن،پر اسے لگا کہ وہ مرچکی، "لگا جھٹکا۔۔۔ہاہاہا۔۔۔۔ہاں یہ سچ ہے کہ اس رات تمہاری بہن بچ گئی تھی پتا نہیں کیسے پر وہ بچی۔۔۔۔لیکن صرف کچھ دن کے لیے کیونکہ اسکے بعد تو یقیناً میں نے اسے مار ہی دیا تھا۔۔۔ہاں تو میں کیا بتارہا تھا کہ وہ بچ چکی تھی۔۔۔۔اسے جنگل کی طرف بھاگتے میرے ایک آدمی نے دیکھ لیا تھا۔۔۔۔اسکے بعد۔۔۔ہاہا۔۔اسکے بعد میں نے اسے یونہی نہیں بخشا زیبی۔۔۔نہیں بخشا میں نے اسے۔۔۔۔اسکا حشر سننا چاہو گے کہ کیا ہوا تھا۔۔۔۔" زبرین نے بےساختہ ریموٹ ہر گرفت سخت کی انکی باتوں کے زیرِ اثر،دل منافی کررہا تھا پر کان کھڑے تھے کہ آخر کیا کِیا ہے اس وحشی نے اسکی بہن کے ساتھ، "میں نے اسے اپنے آدمیوں کے آگے ڈال دیا۔۔۔اور افف۔۔۔اس رات تمہاری بہن کی اذیت ناک چیخوں نے بہت سکون بخشا مجھے۔۔۔جب میرے آدمیوں کا اس سے کھیل کر دل بھرا تو میں نے اسے ایک کوٹھے بھجوادیا۔۔۔پھر وہاں۔۔۔" بس۔۔۔یہی تک برداشت تھی زبرین کی،اس نے دھاڑتے ہوئے ریموٹ کو پوری شدت سے ایل ای ڈی پر دے مارا کہ اسکی اسکرین ٹوٹی،وہ حلق کے بل چلاتے ہوئے اپنے بال جکڑ گیا، "میں تڑپاکر رکھ دونگا تجھے علوی۔۔۔۔" وہ بری طرح دھاڑتے ہوئے کمرے کی ایک ایک چیز تہس نہس کرنے کے درپے تھا، "بہت ہوا۔۔۔بہت۔۔۔اب کھیل کو اختتام تک پہنچانا ہی ہوگا علوی۔۔۔۔" پورا کمرہ خراب کرنے کے بعد بھی جب اسے سکون نہ ملا تو وہ ضبط سے بڑبڑاتے ہوئے تیزی میں روم سے نکلا،گاڑی پورچ سے نکال کر اسنے اپنے فلیٹ کا رخ کیا،انگلیاں تیزی سے نتاشہ کا نمبر ڈائل کررہی تھیں، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "نتاشہ یار تھوڑا تو کھالو۔۔۔" یمنا صبح سے اسکے پیچھے پڑی تھی پر نتاشہ صاف انکار کررہی تھی، "دل بلکل نہیں کررہا یمنا۔۔۔ہٹادو اسے سامنے سے۔۔۔" بیڈ پر رکھی ناشتے کی ٹرے کو دیکھ کر ہی اسکا دل متلا رہا تھا، "بدھو۔۔۔اس کنڈیشن میں بھوکی رہو گی۔۔۔اچھا تھوڑا سا کھالو۔۔۔پھر میں ضد نہیں کرونگی۔۔۔۔" نوالہ بناکر اب یمنا نے اسکے منہ کے قریب کرتے ہوئے کہا،جبکہ نتاشہ کی آنکھیں اچانک ڈبڈبائی تھیں اسکی بات پر،ذہن کے پردے پر بےساختہ وہ ظالم آیا،یمنا اسکی آنکھوں میں نمی دیکھ کر ہی سمجھ گئی کہ وہ پھر اس سفاک انسان کو یاد کرنے لگی ہے، "نتاشہ پلیز یار۔۔۔اب تو بس کردو اس انسان کے بارے میں سوچنا۔۔۔۔" وہ چڑی تھی اس بےوقوف لڑکی کی دیوانگی پر، "یمنا۔۔۔اگر اد۔۔۔ادیان کو پتا چلا۔۔۔اس بارے میں۔۔تو وہ کتنا خوش ہونگے نا۔۔۔" بھرائی آواز میں بولتے ہی آنسو تیزی سے نتاشہ کے گال پر پھسلے،دل میں آس تھی کہ یقیناً وہ صحیح ہو جائے گا، "نتاشہ۔۔۔تم پاگل ہوکیا۔۔" یمنا نے آنکھیں پھاڑے تقریباً چیختے ہوئے کہا "پہلی بات تو اس سنگ دل کو یہ بات پتا ہی نہیں چلنی چاہیے کبھی۔۔۔۔اور دوسری بات کہ تم۔۔۔۔یار تم کیوں ایسے کررہی ہو۔۔۔بھولو اس ظالم کو۔۔۔آگے پوری زندگی پڑی ہے تمہاری۔۔۔۔صرف ایک ہی شخص پر زندگی تمام نہیں ہوجاتی۔۔۔۔" مضبوط لہجے میں بولتے ہوئے یمنا نے اسے بازوؤں سے پکڑ کر جھنجوڑ دیا، "پر میری تو اسی شخص پر تمام ہوگئی ہے۔۔۔۔" ہلکی آواز میں بڑبڑاتے وہ یمنا کو بہت تھکی ہوئی لگی،اسکی اندھی محبت دیکھ یمنا نے تاسف سے زبرین کی سفاکیت کے بارے میں سوچا،آخر کیسے کوئی اس قدر چاہنے والا کو دھوکہ دے سکتا تھا، "تم بہت تڑپو زبرین۔۔۔" یہ بات صرف وہ سوچ ہی سکی،تبھی فون رنگ کرنے پر یمنا نے اپنا موبائل دیکھا،تیمور کی کال تھی، "ایک منٹ۔۔۔" وہ بولتے ہوئے روم سے نکلی، اسکے جانے بعد نتاشہ نے اپنا موبائل آن کیا،سامنے ہی زبرین کی مسکراتی پِک تھی،ایک آنسو لڑھک کر اسکے گال سے موبائل کی اسکرین پر گرا، "کاش۔۔۔ادیان۔۔۔کاش کہ سب ٹھیک ہوجائے۔۔۔۔" اذیت سے بول کر وہ اسکی تصویر کو سینے سے لگاگئی، کچھ دیر بعد کسی کی کال آنے پر نتاشہ نے اسکرین سامنے کی،چمکتی اسکرین پر اس ظالم کا نمبر نتاشہ کے لیے باعثِ مسرت اور خوشگوار تھا،وہ بےیقین نظروں سے اسکرین کو دیکھنے لگی،پر جب مسلسل بیل بجنے لگی تو اس نے جھٹ سے کال ریسیو کی،کان ترسنے لگے تھے اس ظالم کی آواز سننے کے لیے،تبھی سپیکر پر بھاری آواز ابھری، "کیا مجھے معافی مِل سکتی ہے۔۔؟" اسکی آواز تھی یا کیا،نتاشہ کا سارے اعضاء کان بن گئے،کیا وہ سچ میں اس سے معافی مانگ رہا تھا،کیا اسکو احساس ہوگیا تھا نتاشہ کی بے لوث محبت کا، "تم۔۔۔۔ابھی۔۔۔ہمارے فلیٹ پر آسکتی ہو۔۔۔؟" پُرتکلیف میں پوچھے جانے والے سوال پر نتاشہ کا دل بری طرح کرلایا،وہ بےچین ہی تو ہوگئی تھی،معصوم دل خوشی سے جھوم اٹھا تھا بغیر یہ جانے کہ مقابل کی آواز کس قدر مکروہ ہے، "پلیز۔۔۔واپس آجاؤ۔۔۔" زبرین کی اذیت بھری آواز نتاشہ کو اور تڑپاگئی تھی،اس نے فون پر دونوں ہاتھوں سے گرفت اور مضبوط کرلی، "ادیان۔۔میں۔۔" اسے سمجھ نہ آیا کہ کیا بولے "نتاشہ۔۔۔صرف ایک موقع دے دو۔۔۔صرف ایک موقع۔۔۔یقین کرو پھر میں تم تک کوئی تکلیف کوئی درد آنے نہیں دونگا۔۔۔۔ہر درد سے آزاد ہو جائے گی میری جان۔۔۔" وہ لب بھینچے بہت ضبط سے بول رہا تھا،دوسری طرف نتاشہ ہچکیوں سے رونے لگی تھی۔ "I love you Adiyaan....love you so much....I'm coming..." سختی سے فون کو تھامے وہ ہچکیوں کے دوران بھیگے لہجے میں بولی،ساتھ ہی پھر روئی تھی خوشی سے،اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اسکا ادیان اسے بلارہا تھا۔ "آئی لوو یُو ٹو میری جان۔۔۔" دلکشی سے مسکراتے ہوئے نم آواز میں زبرین نے کہا،دوسری طرف سے فون رکھنے کے بعد اسکے چہرے پر ٹہری یہ مسکراہٹ ہنسی میں ڈھلی تھی،ایک زخمی اذیت زدہ ہنسی،ہاتھ میں تھامی پسٹل کو اس نے آہستگی سے سہلایا "جلدی سے آجاؤ میری جان۔۔۔پھر جلد ہی تمہیں ہر تکلیف سے آزاد کردونگا میں۔۔۔" پسٹل سہلاتے ہوئے وہ تمسخر لہجے میں پھنکارا،قہر زدہ آنکھیں منتظر تھیں اس بےخبر پنچھی کی واپسی کے لیے، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

   0
0 Comments